: حاضرات کے اعمال کے آداب
عام طور پر یہ سننے میں آتا ہے کہ ہم نے دی ہوئی ہدایت کے عین مطابق عمل کیا ہے بلکہ جو اس میں جلالی جمالی پرہیز تھے ان پر بھی مکمّل طور پر عمل کیا ہے مگر کامیابی کا حصول ممکن نہ ہو پایا اور کسی بھی بچہ پر حاضری نہیں ہوئی میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ عمومی طور پر لوگوں کو حاضرات کے ابتدائی قوائد اور شرائط و آداب وغیرہ سے ہی آگاہی حاصل نہیں ہے دیکھا یہی گیا ہے کہ بازار سے کتابیں یا رسائل خریدے اور ان میں کسی بھی عمل کو پڑھ کر شروع کر دیتے ہیں عمل پھر جب ناکام ہو جاتے ہیں تو اس ناکامی کے بعد بجائے کسی سے رہنمائی حاصل کرتے وہ عملیات یا حاضرات سے ہی بدظن ہو جاتے ہیں درج ذیل سطور مختصر تحریر کی جا رہی ہیں کہ جس کو پڑھ کر اور ان پر عمل کر کے آپ ناکامی اور پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔
1۔وہ لوگ جو حاضرات کا عمل کرنا چاہیں انہیں چاہیے کہ لازمی طور پر ہر جمعرات کو کسی بھی میٹھی شے پر ارواح کے نام کی فاتحہ دلا کر بچوں میں تقسیم کیا کریں۔
2۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز ایک سو اکیس روحیں حاضر ہوا کرتی ہیں عین ممکن ہے کوئی بھی روح آپ کے اس عمل سے خوش ہو کر آپ کے پاس حاضر ہو جائے اور یوں آپ کو طویل مشقت میں مبتلا ہوۓ بغیر ہی کچھ حاصل ہو جائے یہ اکثر بزرگوں کا آزمودہ ہے۔
3۔حاضرات کے عامل کو چاہئیے کہ وہ ہر جمعرات کو بزرگان دین کے مزارات پر حاضری کو اپنا معمول بنا لیں۔
4۔عامل اگر خود ہر حاضرات کے عمل کا تجربہ کرنا چاہے تو اس کو معلوم ہونا چاہئیے کہ اس کا مقرّرہ وقت مغرب سے قریب آدھا گھنٹہ قبل ہے کیونکہ اس وقت تمام روحانیت کو منجمند تصوّر کیا جاتا ہے چنانچہ یہ حاضرات کا خصوصی وقت خیال کیا جاتا ہے۔
5۔لازمی طور پر حاضرات کے وقت تنہائی اختیار کریں اور اگر بہت ضروری ہو تو کم سے کم لوگ وہاں موجود ہوں کیونکہ بزرگوں کی روحیں شور وغیرہ کو ناپسند کرتی ہیں اور ان کی ناراضگی بہرحال کوئی خوش آئند بات قرار نہیں دی جا سکتی۔
6۔یہ بات بھی ازبس ضروری ہے کہ جب تک عامل حاضرات میں کامل نہ ہو جائے اسے کسی بھی سائل کے گھر جا کر حاضری کرنے سے گریز کرنا چاہئیے مبادا کہ حاضری نہ ہو اور عامل کو خفگی کا سامنا کرنا پڑے۔
7۔عامل کو اگر جنّات وغیرہ کو قابو کرنے میں مہارت حاصل نہ ہو تو اسے ان گھروں میں جا کر ہرگز عمل نہ کرنا چاہئیے جہاں پر جنّات کا ڈیرہ یا اثر وغیرہ ہو اس طرح یقیناً نقصان ہی ہوا کرتا ہے اس طرح ان لوگوں میں سے بھی کسی پر حاضری ہرگز نہ کرے جن پر سایہ یا جنّات وغیرہ مسلط ہوں۔
8۔اس بات کا دھیان رکھنا بھی بیحد ضروری ہے کہ شدید ضرورت کے پیش نظر ہی حاضری کرے محض شو بازی یا کھیل تماشے کے طور پر ایسا ہرگز نہ کرے اس سے بعض اوقات نقصان کا احتمال ہوتا ہے۔
9۔زکات ادا کرنے کے بعد تجربہ کے طور پر کسی بھی شخص پر حاضری کی جا سکتی ہے بھلے ایک روز میں سو مرتبہ ہی کیوں نہ ہو۔
10۔یاد رہے اگر کسی ایک معمول پر حاضری نہ ہو تو ایسے میں عمل فرضی یا غلط تصوّر نہیں کرنا چاہئیے بلکہ بار بار حاضری کی مشق کریں عین ممکن ہے کہ جس معمول پر آپ حاضری کر رہے ہیں اس پر حاضری ممکن ہی نہ ہو چنانچہ بددل ہوئے بغیر کسی دوسرے معمول پر حاضری کر کے تسلّی کر لیں۔
11۔یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایسے مقامات یا ایسے گھروں میں جہاں کسی کی بھی غیر طبعی موت واقعہ ہوئی ہو ہرگز عمل نہ کریں غیر طبعی موت سے مراد قتل یا خودکشی وغیرہ ہے۔
12۔عامل کو چاہئیے کے چوری ، قتل یا دوسرے کسی بھی غیر اخلاقی کام کے سلسلہ میں کسی کی مدد نہ کرے یعنی اس کے لئیے حاضری نہ کرے اس میں ہی عامل کی بھلائی ہے۔
13۔احتیاط لازم ہے کہ دوران حاضری کسی بھی ایسے شخص کو اپنے قریب نہ بیٹھنے دے جس پر جنّات یا کسی روح کا اثر ہونے کا احتمال بھی ہو۔
14۔اس بات کی احتیاط ازبس ضروری ہے کہ دوران حاضرات جو بہت سے مشاہدات وغیرہ عامل دیکھے اس کا تذکرہ کسی بھی طرح کسی سے نہ کرے وگرنہ بعد میں عامل کو ہی پچھتانہ پڑے گا۔
15۔بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ عامل ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ بزرگوں کی روح سے تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ سامنے آئیں یا یہ کے ان پر عامل پر حاضر ہوں یوں کرنے سے یقیناً بزرگوں کی روح ناراض ہو جاتی ہے یقین رکھنا چاہئیے کہ جب کسی بزرگ کی روح خوش ہوئی تو یہ تمام مراحل خود بخود ہی طے ہو جایا کرتے ہیں یہ کرنا چاہئیے کہ اپنا یقین کامل رکھے اور مایوس نہ ہو۔
16۔بعض اوقات ایسا بھی ممکن ہو جاتا ہے کہ کوئی بزرگ بعد از حاضری یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ آپ کہ پاس ہی رہنا چاہتے ہیں تو ایسے خوش قسمت عامل کو چاہئیے کہ وہ اپنے گھر میں کوئی ایک کمرہ مخصوص کر دیں اور ان کمرہ کو اچھی طرح صاف کر کے وہاں پر صاف ستھری دری یا چٹائی اور اگر ممکن ہو تو کوئی قالین بچھا دیں اور اس پورے کام کو اپنے لئیے خوش قسمتی تصوّر کریں ہر جمعرات کو چراغ اور اگر بتیاں جلایا کریں۔
17۔اپنے آپ کو صالح کاموں میں مشغول رکھنے کی کوشش کریں اور یاد رکھیں کہ کسی بھی حال میں حاضری کر کے انعامی بانڈز کے نمبر یا کسی بھی غیر شرعی کام کا پوچھنا ممنوع ہے اگر اس کے باوجود عامل کرے گا تو حاضرات ہاتھ سے جاتی رہے اور نقصان اس کے علاوہ ہو گا۔
18۔عام طور پر بچوں کے والدین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ حاضری سے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے تو ان کو مطمئن کرنا چاہئیے کہ اس دوران بزرگوں کی ارواح حاضر ہوتی ہیں چنانچہ ڈرنے اور خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان دوران بچے پر حصار کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
19۔یہ بھی حقیقت ہے کہ دوران حاضری معمول کے سر اور آنکھیں شدید ترین وزن محسوس کرتی ہیں یعنی سر میں شدت کا درد ہوتا ہے ایسا ہر معمول کے ساتھ دوران حاضری ضرور ہوتا ہے چنانچہ معمول کو اس بارے میں کامل آگاہی دیں کہ ایسا ہونا خوف والی بات نہیں ہے کیونکہ جب حاضری مکمّل ہو جاتی ہے تو یہ کیفیّت خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔
20۔حاضری سے قبل معمول پر چند نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں یعنی سر کا بھاری ہونا ، دماغ سن ہونا ، جھٹکے لگنا ، آنکھوں کے آگے بجلی جیسی چمک دکھائی دینا اگر یہ علامات کسی معمول پر ظاہر نہ ہوں تو یقین کر لینا چاہئیے کہ ایسے معمول پر حاضری ممکن نہیں ہے چنانچہ اس پر وقت ضائع نہ کریں اور نہ ہی لوگوں کے سامنے خود کا تماشہ بنائیں۔
21۔احتیاط کریں جب تک بچے حاضری کے لئیے ذہنی طور پر تیار نہ ہوں یعنی انکار کریں تو حاضری کا عمل ہرگز نہ کریں کیونکہ ایسے میں ان کا ذہن کسی اور طرف مبذول ہوتا ہے یعنی ان میں پوری طرح یکسوئی کا فقدان ہوتا ہے اور حاضری کے لئیے تو تصوّر اور یکسوئی کی اشد ضرورت ہوا کرتی ہے۔
22۔یاد رہے حاضری سے قبل اگر بچے کے گلے میں کوئی تعویز وغیرہ ہو تو اسے اتار لیں وگرنہ حاضری میں کامیابی نہ ہو گی۔
23۔یہ بھی ضروری امر ہے کہ جس طریقہ سے بھی حاضری کی جائے وہ طریقہ عامل کو اچھی طرح یاد ہو اور عامل کا تلفّظ اور کلمات کی ادائگی باالکل درست ہو۔
24۔احتیاط لازم ہے کہ جس کمرہ میں حاضری کرنا ہو وہ ہر طرح سے پاک صاف ہو اس میں کوئی بھی گناہ کا کام نہ ہوتا ہو حتیٰ کے سگریٹ نوشی بھی نہ ہوتی ہو اور نہ ہی وہاں پر ٹیلی ویزن چلتا ہو شراب و زنا تو بہت دور کی بات ہے۔
25۔حاضری والے کمرہ میں ایسا کلینڈر بھی نہ ہو یا کوئی ایسا اشتہار بھی نہ ہو جس پر کسی عورت کی فحش تصویر ہو۔
26۔دوران حاضری اس کمرہ میں کوئی بھی شخص سگریٹ نوشی ہرگز نہ کرے بلکہ مناسب تو یہی ہے کہ جہاں حاضری کرنا ہو وہاں کم از کم تین چار گھنٹے پہلے ہی سگریٹ نوشی وغیرہ نہ کی جائے۔
27۔حاضری کے وقت کمرہ میں ایسی خاتون کو نہ آنے دیں جس کو حیض آ رہا ہو یا ایسی خاتون جس پر غسل و جنابت لازمی ہو اس سے نقصان ہوتا ہے۔
28۔حاضری کے لئیے با الکل صحت مند بچے اور خواتین و حضرات کا ہی انتخاب کرنا چاہئیے اور یہ اطمینان کر لیں کہ وہ با الکل صحت مند اور دماغی طور پر با الکل صحت مند ہیں بیوقوف اور احمق لوگوں پر حاضری ہرگز نہ کریں۔
29۔کسی بھی بچے یا عورت و مرد جن کو آنکھوں کا بھینگا پن ہو یا جس کی ایک آنکھ مصنوئی ہو یا آنکھوں میں کوئی اور نقص ہو ہاں اگر بینائی کمزور ہو تو کوئی حرج نہیں یہ نقص سے تعبیر نہیں کیا جائے۔
30۔بطور خاص یہ احتیاط بھی ملحوظ خاطر رکھے کہ حاضری کی محفل میں کوئی بھی مرد یا عورت ایسا شامل نہ ہو جس پر غسل جنابت فرض ہو اس طرح پوری محفل سے زیادہ نقصان عامل کو ہو گا۔
31۔بعض حاضرات میں توشہ کی بھی شرط ہوا کرتی ہے دراصل یہ مؤاکلین کا صدقہ ہوتا ہے جن حاضرات میں توشہ کی شرط ہو ان کے توشہ کے بغیر ہرگز نہ کریں اس سے نقصان بھی ہو گا اور مایوسی بھی ضرور ہو گی۔
: خصوصی ہدایت براۓ عاملین
اعمال حاضرات شروع کرنے سے قبل جن امور کا جاننا عامل کے لئیے ضروری خیال کیا جاتا ہے انہیں بیان کیا جاتا ہے تا کہ اس طرح کوئی بھی نکتہ عامل کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہے گا اور ان پر عمل کر کے عامل کبھی مایوس نہ رہے گا اور نہ ہی اس کو پچھتانہ پڑے گا۔
1۔عمل کا آغاز کرنے سے پہلے کسی شیرینی پر حضور غوث پاک سرکار علیہہ رحمہ اور آپ کے گیارہ خصوصی مریدین کے ناموں کی فاتحہ پڑھ کر شیرینی بچوں میں بانٹ دیں اور اس کے ساتھ خلوص دل سے دعا کریں۔
2۔عام طور پر حاضرات کے اعمال وغیرہ کا آغاز نوچندی جمعرات کو ہی کیا جاتا ہے لیکن اکثر بزرگان نے چاند کی گیارہ تاریخ کو بھی افضل قرار دیا ہے۔
3۔اگر آپ یہ معلوم کرنا چاہیں نوچندی جمعرات کون سی ہے تو آپ کو یاد رکھنا چاہئیے کہ بدھ کے روز بعد از مغرب جمعرات شروع ہو جاتی ہے کیونکہ اسلامی تقویم سورج کے غروب ہوتے ہی دن تبدیل ہو جاتا ہے۔
4۔یاد رہے کہ ان اعمال کے لئیے تنہائی و یکسوئی ازبس ضروری خیال کی جاتی ہے اور اسی لئیے کہا جاتا ہے کہ ان کے لئیے کسی ایک الگ کمرہ کو خصوصی طور پر اختیار کر لیں جہاں پر آپ پوری یکسوئی کے ساتھ عمل کر سکیں اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ آپ کی غیر موجودگی میں کوئی بھی دوسرا وہاں داخل نہ ہونے پاۓ۔
5۔دوران جملہ اعمال حاضرات گوشت ہر قسم کا کچا لہسن اور پیاز نہیں کھانا اور اس کے ساتھ بیوی کے ساتھ مباشرت بھی نہیں کرنی ہے۔
6۔یاد رہے عمل شروع کرنے سے قبل کسی عامل کامل یا استاد صاحب سے جو ان امور پر مکمّل دسترس رکھتے ہوں اجازت لینا بہت ضروری ہوتا ہے تا کہ رجت کا امکان و خوف لاحق نہ ہو۔
7۔یاد رہے جیسے ہر عمل کی مقرّرہ میعاد ہوا کرتی بسا اوقات کسی بھی وجہ سے وقت زیادہ لگ سکتا ہے چنانچہ اگر پہلے چلّہ میں کامیابی نہ مل سکے تو اس کو دوبارہ کیا جائے یہی نہیں بلکہ ہو سکتا ہے تیسری مرتبہ بھی کرنا پڑ جائے ان وجوہات کی بنا پر ہرگز بددل نہیں ہونا چاہئیے بلکہ اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئیے جیسا کہ آپ کو معلوم ہو گا کہ ہر انسان یکساں قوّتیں نہیں رکھتا قدرتی طور پر کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہے۔
8۔بد افعال کے عادی لوگوں کو اس طرف نہیں آنا چاہئیے کیونکہ ان اعمال کے لئیے جماع کی پابندی ہوا کرتی ہے حتیٰ کہ بیوی کے پاس جانے کی بھی پابندی ہوتی ہے۔
9۔اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے وہ کمزور دل گردے کا مالک ہے تو اس کو چاہئیے ان اعمال کی جستجو ہی نہ کرے کیونکہ اس دوران خوف بھی لاحق ہوتا ہے اگر وہ زیادہ خوفزدہ ہو گیا تو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا دماغ ہی الٹ جائے اور وہ رجعت کا شکار ہو جائے چنانچہ عمل کی ابتداء سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرنا ضروری ہوتا ہے کہ آیا مجھ میں یہ اعمال کرنے کی طاقت بھی ہے یا نہیں۔
10۔ان لوگوں کے لئیے ان اعمال میں خطرات ہی خطرات خیال کئیے جاتے ہیں جو کسی بھی آسیبی مرض کا شکار ہوں یا پھر جن کسی بھی زی روح مسلّط ہو ایسے لوگ اگر تندرست ہو بھی جائیں تو پھر ان پر عمل نہیں کرنا چاہئیے۔
11۔جن حاضرات میں زکات وغیرہ کی شرط لازمی ہوتی ہے انہیں بغیر زکات کے نہیں کرنا چاہئیے۔
12۔اگر ایک چلّہ میں کامیابی حاصل نہیں ہو پاتی تو عمل کو ترک نہیں کرنا چاہئیے بلکہ تین چلّوں تک بھی لگاتار کرنا پڑے تو ہمّت نہیں ہارنا چاہئیے ہاں مگر ہر چلّہ کامل یقین کے ساتھ کریں کہ یقینی طور پر کامیابی حاصل ہو گی یہ بات مدنظر رکھیں کہ بعض اوقات عملیات کا ظہور دیر سے بھی ہوا کرتا ہے۔
13۔عمل کسی مخصوص کمرہ میں ہی کیا جائے جہاں پر کسی بھی دوسرے شخص کا آنا جانا نہ ہو اگر یہ مجبوری ہو کہ الگ سے کمرہ دستیاب نہ ہو تو پھر چاہئیے کہ آبادی سے دور کسی کھلی جگہ پر یہ اعمال کئیے جائیں ہاں مگر اس بات کی ضرور احتیاط رکھیں کہ کسی کی نظر آپ پر نہ پڑے ورنہ سب کیا دھرا خاک میں مل جائے گا اور سوائے وقت کے ضائع کرنے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
14۔عمل کے دوران بے تحاشہ مشاہدات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان مشاہدات کا ذکر کسی سے ہرگز نہ کریں کیونکہ پردہ داری ہی عملیات کی شرط اولین ہوتی ہے بعض اوقات کسی سے ذکر کرنے کی وجہ سے مشاہدات نظر آنا بند ہو جایا کرتے ہیں۔
15۔چلّہ کشی کے دوران حتیٰ الامکان لوگوں سے ملنا کم کر دے اور بہت ضروری ملنے کے علاوہ تنہائی ہی اختیار کریں تو بہتر ہے۔
16۔چلّہ کشی کے دوران عامل کو چاہئیے کہ کسی بھی حال میں کسی سائل کو نقش وغیرہ لکھ کر نہ دے اس طرح کوئی آسیبی مریض اگر آ جائے تو اس کا علاج نہ کرے ورنہ نقصان کا احتمال ہے۔
17۔چلّہ کشی کے لئیے اگر کمرہ منتخب کر لیا جائے تو پھر اس کو کسی بھی طرح تبدیل نہ کریں وگرنہ چلّہ بیکار ہو جائے گا اس طرح جو بھی وقت عمل کا منتخب کریں اس کی بھی پابندی ضرور کریں کیونکہ روحانیت پابندی وقت کی متقاضی ہوتی ہے اگر وقت کی پابندی نہ کی جائے تو پھر روحانیت حاصل نہیں ہو سکتی۔
18۔چلّہ کشی کے دوران اگر عامل کا سر بھاری ہو جائے اور کندھوں پر وزن پڑے اور دماغ لگے کے سن ہو رہا ہے تو یہ علامات کامیابی کی دلیل ہوا کرتی ہیں گھبرانہ نہیں چاہئیے۔
19۔چلّہ کشی کے دوران ہر شخص پر کڑی نظر رکھنی چاہئیے اگر کوئی فقیر مانگنے والا آ جائے تو اس کے ساتھ بھی فضول بات چیت نہیں کرنی چاہئیے اگر ممکن ہو کچھ دے دلا کر رخصت کر دینا چاہئیے۔
20۔چلّہ کشی کے دوران بسا اوقات یوں ہوتا ہے کہ عامل سے کہا جاتا ہے ہم حاضر ہو گئے ہیں چنانچہ اب یہ عمل وغیرہ بند کر دیا جائے یاد رکھنا چاہئیے کہ عمل پورا کئیے بغیر کسی بھی حال میں عمل کو روکنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آ جائے تو ان کی باتوں میں ہرگز نہیں آنا چاہئیے وگرنہ شدید ترین خطرات سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے اکثر عاملین انہی وجوہات کی بنا پر اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں ضرور احتیاط کریں اور خود کو ذہنی طور پر تیار کریں۔
21۔چلّہ کشی ایسے گھر میں ہرگز نہ کریں جہاں پر کوئی بھی آسیبی مریض ہو یا جہاں پر کسی کے اوپر جنّات وغیرہ کا اثر ہو اس طرح متاثرہ افراد بھی پریشان ہوں گے اور عمل بھی اکارت جائے گا۔
22۔چلّہ کشی کی ایسی جگہ یعنی کسی ایسے گھر میں نہ کریں جہاں پر کسی کی غیر طبعی موت واقع ہوئی ہو اس طرح ناکامی کے سوائے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
: اوقات حاضرات
یوں تو حاضرات کے لئیے کسی بھی مخصوص وقت کی پابندی نہیں ہے ہاں مگر پانچ فرض نمازوں اور اوقات زوال میں نہیں کرنا چاہئیے بعض بزرگوں نے صبح دس بجے کا وقت بہتر ارشاد فرمایا ہے بزرگوں کا کہنا ہے کہ اسی وقت حاضرات کرنا چاہئیے اگر عامل خود اپنے اوپر حاضرات کا تجربہ کرنے کا خواہش مند ہو تو پھر اس کے لئیے مغرب سے ذرا پہلے کا وقت مناسب ہے جب تمام روحانیت منجمند ہو جاتی ہے۔
: حاضرات کی جگہ
جیسا کہ حاضرات کرنے کے لئیے کسی مخصوص وقت کی قید نہیں ہے اسی طرح حاضرات کے لئیے کسی مخصوص جگہ کی بھی کوئی قید نہیں ہے ہاں مگر جس کمرۂ خاص حاضرات کریں وہ پاک صاف ہونا چاہئیے۔
احتیاط لازم ہے کہ کسی ایسے گھر میں ہرگز حاضرات نہ کریں جہاں پر جنّات وغیرہ کا بسیرہ ہو کیونکہ جنّات ضرور رکاوٹ ڈالیں گے یا دوسری صورت اصراف عمل کر کے کوئی بھی عمل شروع کیا جائے اسی طرح قبرستان کے نزدیک بھی نہیں کرنا چاہئیے بسا اوقات یہ ہوتا ہے کے جنّات حاضرات میں پریشان کر دیتے ہیں اور خود ہی جعلی بزرگ بن کر سوالوں کے جواب دیں گے اور اس طرح کے جواب بھی غلط ہوں گے جو بعد ازاں ماسوائے شرمندگی کے اور کچھ نہ ہوں گے۔
: توشہ
بعض حاضرات کے دوران کچھ اشیاء قریب رکھی جاتی ہیں ان کو توشہ کہا جاتا ہے ان میں برفی ، سات رنگوں کی مٹھائی ، سبز الائچی ، بتاشے اور تازہ پھول وغیرہ ہوتے ہیں دراصل یہ مؤاکلین کا صدقہ ہوتا ہے ہو سکے تو ان اشیاء کی خریداری کسی پرہیزگار شخص کی دکان سے کی جائے۔
حاضرات کے بعد ان اشیاء کو کسی ندی یا دریا میں ڈال دیا جائے اور ہرگز مڑ کے پیچھے نہ دیکھا جائے اسی طرح یہ بھی احتیاط کریں کہ اشیاء جب آپ دریا میں ڈالیں تو کوئی آپ کو نہ دیکھ رہا ہو اگر آپ کے نزدیک کوئی ندی یا دریا نہ ہو تو پھر ان اشیاء کو کسی ویران جگہ پر بھی ڈال سکتے ہیں مگر ایسی جگہ ڈالیں جہاں ان کی بےحرمتی نہ ہو ویرانے میں بھی اگر یہ چیزیں ڈالیں تو واپسی میں پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔
: حاضرات میں رکاوٹ
یاد رکھیں بعض گھر یا بعض مقام ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جہاں پر جن بھوت کا قبضہ ہوتا ہے یقیناً وہ حاضرات میں رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں چنانچہ ایسے گھروں میں یا ایسے مقامات پر حاضرات سے گریز کرنا ہی بہتر ہے۔
جی ہاں ! یہاں پر اول تو جنّات وغیرہ حاضرات ہی نہیں ہونے دیں گے اور بالفرض محال ہو گی بھی تو یہ جعلی ہی ہو گی عامل کو اگر شک بھی ہو جائے تو اسے فورا جگہ تبدیل کر لینا چاہئیے وگرنہ عامل کے لئیے اور معمول کے لئیے شدید خطرہ موجود ہے۔
یقین کریں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی دوسری جگہ یا کسی دوسرے شہر یا گاؤں میں جا کر بھی حاضرات ممکن نہیں ہو پاتی وجوہات جن میں ایک تو جنّات و بھوت وغیرہ کی رکاوٹ پہلے ہی بیان کی جا چکی ہے دوسرے یہ کہ اس شہر یا گاؤں میں کسی صاحب روحانیت کا مزار ہوتا ہے چنانچہ اگر ایسی صورت حال پیش آ جائے تو صاحب مزار سے اجازت لیں حاضری کھل جائے گی۔
: حاضرات میں خطرات
کوئی بھی غیر شرعی کام اگر معمول سے کہے گا تو اس کو الٹا نقصان ہی پہنچے گا چنانچہ عامل کو احتیاط کرنا چاہئیے کہ بزرگوں کے مزاج کے خلاف کوئی کام ہرگز نہ کرے جیسے انعامی بانڈز وغیرہ کے نمبر معلوم کرنا اور دیگر غیر شرعی امور میں ہرگز کوشسش نہ کرے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ عامل کو چاہئیے پہلے مشورہ کر لے کہ یہ معلومات وہ حاصل کر سکتا ہے کہ نہیں ؟ اگر وہ منع کر دیں تو ہرگز اصرار نہ کرے وگرنہ شدید نقصان کا اندیشہ ہے۔
: حصار
اگر حصار قائم کرنا چاہیں تو چاقو یا چھری وغیرہ پر چاروں قل شریف اور آیت الکرسی ایک ایک مرتبہ پڑھ کر دم کر کے اپنے چاروں طرف گول حلقے کی صورت میں حصار قائم کر لیں اور جہاں گول حلقہ ملے وہیں چاقو یا چھری گاڑ دیں ہر عمل میں یہی طریقہ اختیار کریں حصار قائم کرتے هوئے اس بات کا خاص خیال کریں کہ دائرہ کسی جگہ سے نہ ٹوٹے مکمّل گول ہونا چاہئیے۔
: معمول
معمول کیسا ہونا چاہئیے ؟ یہ ایک نہایت ہی اہم اور ضروری سوال ہے یہ بھی اہم بات ہے کہ یہ آخر کس طرح معلوم ہو پائے گا کہ اس بچے پر حاضرات ہو گی بھی کہ نہیں کیونکہ ہم نے تو بچے پر حاضرات کی ہے اور نہیں ہوئی لہٰذا عامل کو ایسا مجرّب اور آزمودہ عمل معلوم ہونا چاہئیے کہ جس سے حاضرات میں نکامی کا اندیشہ نہ ہو؛
معمول کیسا ہو ؟ اس کا سیدھا جواب تو یہ ہے کہ معمول اگر بچہ ہو یا بچی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ معمول پرہیزگار ہو یا پانچوں وقت کا نمازی ہی ہو کیونکہ تجربات سے یہ باتیں ثابت ہو چکی ہیں ہاں مگر معمول تندرست ہو بیوقوف نہ ہو اور با الکل چاق و چوبند نہ ہو اس طرح وہ کسی بیماری میں مبتلا نہ ہو اور نہ ہی کسی آسیبی مرض میں مبتلا ہو اور نہ ہی کسی ذہنی پریشانی کا شکار ہو؛
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب کسی بچے پر حاضرات کی جاتی ہے تو اس ہر درج ذیل علامات ظاہر ہوتی ہیں اگر یہ علامات ظاہر نہ ہوں تو پھر یہ یقین کریں کہ حاضری نہیں ہو سکتی لہٰذا وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے چنانچہ کسی دوسرے بچے پر اس کا تجربہ کر لیں۔
علامات یہ ہیں حاضری کے وقت بچے کا سر اور آنکھیں بھاری ہو جاتی ہیں اس کا سر درد سے پھٹنے لگتا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے بجلی جیسی چمک نظر آتی ہے اگر حاضرات کے وقت بچے پر یہ علامات ظاہر نہ ہوں تو حاضری نہیں ہو گی۔
: خطرات
عام طور پر حاضرات کے لئے معمول بچوں کے والدین اور عزیز و اقارب خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کہیں ان کے بچے کو کچھ خطرہ نہ لاحق ہو جائے مگر یاد رہے کہ حاضری میں بزرگوں کی ہی حاضری ہوتی ہے چنانچہ ان سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی لیکن یہ ضروری ہے کہ حاضری سے قبل بچے کے والدین سے یہ معلومات ضرور حاصل کر لیں کہ بچے کو کوئی آسیبی مرض کا عارضہ تو نہیں ہے یا یہ کہ اس کو پہلے کوئی عارضہ تو نہیں تھا اگر ایسا ہوا تو پھر اس بچے کو معمول بنانا خطرے سے خالی نہیں ہو گا
دوسری بات یہ ہے کہ عامل کو چاہئیے کہ کسی ایسی جگہ یا گھر میں معمول کو لےجا کر حاضری نہ کرے جہاں پر جنّات وغیرہ کا بسیرا ہو اس طرح سے معمول کو اور عامل دونوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ان امور کی طرف بطور خاص توجہ مرکوز رکھنا ازبس ضروری ہوتا ہے وگرنہ نقصان ہونا ضروری ہوتا ہے۔
: ممنوعات
یاد رکھنا چاہئیے جب حاضرات کا عمل کیا جائے تو اس کو پوشیدہ رکھا جائے اس طرح جو مشاہدات دوران عمل دکھائی دیں تو ان کو بھی اپنے آپ تک ہی محدود رکھیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر مؤکل کوئی چیزیں بطور نشانی دیں ان کا ذکر کسی سے بھی نہ کرے وگرنہ وہ چیزیں غائب ہو جائیں گی اور ان کا دوبارہ ملنا بھی محال ہی ہو گا یعنی دوبارہ ملنا ناممکن ہوگا۔
ضروری بات یہ بھی ہے کہ کبھی بھی ظاہر حاضرات سے کوئی کام نہ لیں بلکہ کسی بھی شخص کے علم میں یہ نہ آنے پائے کہ آپ کے قبضہ میں کوئی مؤکل یا زی روح وغیرہ ہے بہتر تو یہی ہو گا ان کو ہمہ وقت ساتھ رکھنے کا وعدہ ہی نہ کیا جائے کیونکہ اگر روحانیت ہمہ وقت ساتھ رہے گی تو عامل کے سر اور دماغ پر اتنا وزن پڑے گا کہ ناقابل برداشت ہو گا اور عامل کوئی بھی دوسرا کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا اسی لئیے بزرگوں نے اعمال تسخیر کے سلسلہ میں یہ بات بطور خاص تحریر کی ہے۔
اس طرح چلّہ کشی کے دوران جلالی و جمالی پرہیز ضرور کیا جائے اور جماع سے مکمّل طور پر خود کو بچائے رکھیں کیونکہ یقیناً اس دوران شہوت میں بھی زیادہ تیزی ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ دوران چلّہ کشی ہر قسم کا گوشت اور انڈا اور بدبودار اشیا سے مکمّل پرہیز کیا جائے یہی نہیں بلکہ غصّہ اور لڑائی جھگڑے سے بھی ہر ممکنہ طریقہ سے خود کو بچائے رکھے کیونکہ عام طور پر چلّہ کشی کے دوران ایسی باتیں ہو ہی جایا کرتی ہیں اسی لئیے مناسب یہی ہوتا ہے کہ عام طور پر لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر دے یا بہت ہی کم کر دے۔
عمل کے دوران کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے خود کو بچائے رکھے اور یقین کامل کے ساتھ عمل کو جاری رکھے اگر کوئی شخص زندگی کے کسی بھی حصّہ کسی آسیبی مرض کا شکار ہو چکا ہو تو ایسے شخص کو ان اعمال سے دور ہی رہنا چاہئیے۔
اسی طرح کسی بھی ایسی جگہ عمل نہیں کرنا چاہئیے جہاں پر کسی کی غیر طبعی موت واقع ہو چکی ہو یعنی جہاں کوئی جل کر مر گیا ہو یا قتل ہو گیا ہو یا کسی خودکشی کر لی ہو تو ایسے گھر میں عمل نہیں کرنا چاہئیے اسی طرح جہاں یہ شک ہو کہ اس جگہ یا اس گھر میں جنّات کا بسیرا ہے تو ایسی جگہوں یا گھروں میں عمل کرنا مناسب نہیں ہوتا
اور کسی نے بھی ان امور پر خاص توجہ نہ دی اور احتیاط سے کام نہ لیا تو پھر اس کو رجعت کا شکار ہونا پڑ سکتا ہے ان باتوں کو بیان کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ عاملین کو کسی بھی طرح سے نقصان کا اندیشہ نہ رہے احتیاط بہت ہی زیادہ مفید ہوا کرتی ہے۔
: رجعت
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ بازار سے کتابیں یا رسائل خرید کر ان میں درج عمل پڑھ کر چلّہ کشی شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسا کرنے والے رجعت کا شکار ہو جاتے ہیں ہمارا یہ خیال ہے کہ جب تک کسی عامل یا استاد کی سرپرستی حاصل نہ ہو ایسا کوئی عمل نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ ایسا کرنے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے یاد رہے کہ اگر ایک بار رجعت کا شکار ہو جائے تو پھر اس کا علاج بہت ہی مشکل سے ہوتا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عمل میں کسی غلطی یا کوتاہی کی وجہ سے دماغ پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور یہ اس حد تک ہوتے ہیں کہ بندہ پاگل نہیں تو مخبوط الحواس ضرور ہو جاتا ہے یعنی ایسا کرنے والے اپنی سدھ و بدھ کھو بیٹھتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ کسی کے کہنے سے عمل شروع کر دیتے ہیں حالانکہ بتانے والا عمل کا عامل ہی نہیں ہوتا ایسا کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا ہے۔
اسی طرح کتابوں وغیرہ میں درج عمل کرنے سے بھی نقصان ہوتا ہے اگرچہ کتابوں میں لکھا تو ٹھیک ہوتا ہے مگر کسی بھی کتاب میں عمل کے ساتھ تمام احتیاطیں تو درج نہیں ہوتیں اس لئیے ان اعمال کو کسی استاد یا اپنے پیر و مرشد سے اجازت لے کر ہی شروع کرنا چاہئیے تاکہ رجعت کا شکار نہ بننا پڑے ایک مسلہ اجازت کا بھی ہے ہمارے خیال میں اجازت ایسے شخص سے لینی چاہئیے جو کہ عملیات میں مکمّل دسترس رکھتا ہو یا پھر عامل کا مرشد ہو چنانچہ ان کی رہنمائی میں عمل کرنے والے کو کسی بھی قسم کوئی پریشانی نہیں ہو سکتی۔
: چند ضروری باتیں
چند ضروری باتیں قارئین کی بھلائی کے لئیے درج کی جا رہی ہیں تا کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے،
1۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نے عمل شروع کیا اور دوران چلّہ اس کو ایسی مجبوری آن پڑی کہ اس کے لئیے چلّہ پورا کرنا مشکل ہو گیا اور درمیان میں ہی مجبوراً چھوڑنا پڑ گیا مثلآ گھر میں کسی کا شدید بیمار ہونا بیوی بچوں میں سے کوئی بیمار ہونا یا پھر کسی قریبی عزیز کی وفات ہو جانا لیکن یاد رہے کہ کسی بھی حال میں اگر عمل موقوف کیا جائے گا تو پھر عمل کرنے والا یقیناً رجعت کا شکار ہو جائے گا۔
2۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوران چلّہ کچھ عجیب و غریب چیزیں دیکھیں اور عمل کو ادھورا چھوڑ دیں اس طرح بھی عمل کرنے والا رجعت کا شکار ہو جاتا ہے۔
3۔دوران چلّہ کشی یہ بھی ہوتا ہے کہ روح حاضر ہوئی اور پڑھنے والے سے کہا کہ اس کا عمل کامیاب ہو چکا ہے اور ہم حاضر ہیں چنانچہ عمل کی پڑھائی بند کر دے تو جو لوگ اس چکر میں آ کر عمل بند کر دیتے ہیں وہی رجعت کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب کسی کامل استاد یا پیر و مرشد کی رہنمائی حاصل نہ کی جائے۔
4۔یاد رہے کے رجعت کا شکار لوگ پورے جسم میں شدید درد کا شکار ہر وقت رہتے ہیں انہیں جب دورہ پڑتا ہے تو ان کے ہاتھ پیر مڑ جاتے ہیں اور یہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اس طرح ان کے تمام تر معمولات یعنی کاروبار وغیرہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔
دوسری کیفیّت دماغی خرابی کی صورت میں نظر آتی ہے کہ بندہ پاگل ہو جاتا ہے اور نہ وہ کسی کو پہنچانتا ہے اور نہ ہی کسی سے کلام کرتا ہے چنانچہ پوری ذمّہ داری اور احتیاط کے ساتھ ان اعمال کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہئیے تاکہ نقصان سے دوچار نہ ہونا پڑے کیونکہ بعض اوقات نقصانات ایسی صورتحال اختیار کر جاتے ہیں کہ پھر ان کا ازالہ ممکن ہی نہیں ہو پاتا پھر ان کا پورا گھر ہی پریشان ہو جاتا ہے۔
ہم نے ان امور کی طرف پوری سچائی سے آپ کی رہنمائی کر دی ہے کہ جن پر عمل کرنے سے آپ بہت سی پریشانیوں اور قباحتوں سے بچ سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے آپ بڑے سے بڑے فوائد حاصل کر سکتے ہیں یہ باتیں یقیناً تجربات کا نچوڑ ہوا کرتی ہیں اور یہ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہر کوئی آپ سے بیان بھی نہیں کرے گا ہماری دعا ہے کہ الله کریم علیم و خبیر آپ کو اپنے نیک مقاصد میں کامیاب و کامران فرماۓ اور تمام پریشانیوں سے آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو محفوظ و مامون رکھے آپ بھی ہمیں اپنی نیک دعاؤں میں یاد رکھئے گا الله تعالیٰ آپ کو جزاۓ خیر عطا فرماۓ ،آمین
No comments:
Post a Comment